راحت اندوری کے اچانک انتقال سے
اردو ادب و ہندوستان صدمے میں
ہندوستان کے مشہور ترین و مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب راحت اندوری صاحب آج ١١ اگست بروز منگل شام چار بجے دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ آپکے اچانک انتقال کی خبر سے دنیائے اردو ادب میں صدمے کی لہر دوڑ گئی۔
آج صبح ہی راحت صاحب نے خود ٹوںٔیٹ کر جانکاری دی تھی کہ کووڈ 19 کی ابتدائی علامات کا شبہ ہونے پر میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا جسکی رپورٹ مثبت آنے پر اربندو اسپتال اندور میں داخل کیا گیا ہوں آپ لوگ دعا کریں کہ جلد از جلد اس بیماری کو ہرا دوں۔ ساتھ ہی اپنے محبین سے انھوں نے درخواست کی تھی کہ میری صحت کی جانکاری کے لئے بار بار مجھے یا اہل خانہ کو فون نہ کریں یہ جانکاری فیس بک اور ٹویٹر کے توسط سے آپ لوگوں کو ملتی رہےگی۔ اسطرح عوام کو صبح ڈاکٹر راحت اندوری صاحب کے کورونا مثبت ہونے کی خبر ملی اور شام کو آسمانی آفتاب غروب ہونے سے پہلے ہی اردو ادب کےچمکتے آفتاب کے غروب ہونے کی اچانک خبر ملنے سے زبردست صدمہ پہنچا۔
راحت صاحب کی پیدائش مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں
جنوری 1950 میں ہوئی۔ آپ بیگم مقبول النساء اور رفعت اللہ قریشی کی چوتھی اولاد تھے۔ آپ کے والد نے آپکا نام
راحت اللہ رکھا تھا۔ اسی نسبت سے آپنے راحت تخلص اختیار کیا۔ اسلامیہ کالج اندور سے 1973 میں گریجویشن کیا اور 1975 میں بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مدھیہ پردیش کے بھوج یونیورسٹی سے آپنے 1985 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپنے کالج کے دور سے ہی انیس سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ آپ اپنے اسکول و کالج کی فٹبال و ہاکی ٹیموں کے کپتان بھی رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اندور کے ہی ایک کالج سے اردو ادب کے معلم کی حیثیت سے ملازمت کی شروعات کی تھی۔
آپنے کئ فلموں کے لئے بھی نغمے لکھے۔ جسمیں جنم، خوددار، مرڈر، مشن کشمیر، میناکچھی، قریب، عشق وغیرہ فلمیں شامل ہیں۔ آپنے کئی کتابیں بھی لکھیں جسمیں ناراض، دو قدم اور صحیح، چاند پاگل ہے، میرے بعد، موجود، لمحے لمحے، پانچواں درویش اور دھوپ بہت ہے نے مقبولیت حاصل کی۔
آپنے حقیقت بیانی کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا اور حکومت وقت اور فرقہ پرست طاقتوں پر اپنی شاعری کے ذریعے کھل کر تنقید کی۔ آپکی شاعری میں وطن سے محبت اور اسکی مٹی پر حق کی دعویداری مضبوطی سے پائی جاتی ہے۔ وہ ممیانے والے نہیں دہاڑنے والے شاعر تھے، وہ مشاعروں میں قہقہہ لگاتے ہوئے حکومتوں کو چیلنج کیا کرتے تھے۔ انکا تیور، انکا انداز تخاطب اور انکا لہجہ انھیں کے ساتھ خاص تھا۔
اردو ادب کا یہ مایہ ناز سپوت اندور کے اربندو اسپتال کے انتہائی نگہداشت والے آئ سی یو وارڈ میں داخل رہنے کے باوجود پے در پے آۓ دل کے تین دوروں سے جانبر نہیں ہو سکا اور 11 اگست 2020 عیسوی بروز منگل مطابق 20 ذی الحجہ 1441 ھ کو اردو کے ساتھ ہندی کے بھی شیداںٔیوں کو صدمے میں مبتلا کرتے ہوئے یہ پیغام دے گیا کہ ۔۔۔۔
کون خوشی سے مرتا ہے، مر جانا پڑتا ہے۔
راحت اندوری صاحب کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔۔۔۔۔
زمزم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبیﷺ آپکی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپکے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا
مرے اندر سے اک اک کر کے سب کچھ ہو چکا رخصت
مگر اک چیز باقی ہے جسے ایمان کہتے ہیں
شام ڈھلے ہر پنچھی کو گھر جانا پڑتا ہے
کون خوشی سے مرتا ہے مر جانا پڑتا ہے
افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
میں جب مر جاؤں تو مری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے مری پیشانی پر ہندوستان لکھ دینا
دو گز صحیح یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
جو طور ہے دنیا کا اس طور سے بولو
بہروں کا علاقہ ہے ذرا زور سے بولو
اے وطن اک روز تری خاک میں کھو جاںٔیں گے، سو جاںٔیں کے
مر کے بھی رشتہ نہیں ٹوٹے گا ہندوستان سے، ایمان سے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آںٔیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
اب نہ میں ہوں نہ باقی ہیں زمانے میرے
پھر بھی مشہور ہیں شہروں میں فسانے میرے
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
در بدر جو تھے وہ دیواروں کے مالک ہو گۓ
مرے سب دربان دربانوں کے مالک ہو گۓ
جلا نہ لو کہیں ہمدردیوں میں اپنا وجود
گلی میں آگ لگی ہو تو اپنے گھر میں رہو
دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پر دوہری نقاب رکھتے ہیں
شاخوں سے ٹوٹ جاںٔیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کہہ دو کہ اوقات میں رہے
اب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پہ ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے چلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہیئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہیئے
آپکے نظروں میں ہے سورج کی جتنی عظمت
ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں
Comments
Post a Comment