کبیر اجمل کے انتقال سے بنارس کی ادبی فضا سوگوار



اردو کے مشہور شاعر کبیر اجمل 
  • نہیں رہے
اے ساکنان شہر رفاقت تمہیں سلام 
یہ وہ زمیں نہیں، کہ جہاں میں ٹھہر سکوں


  • چراغ درد ہواؤں سے بجھنے والا نہیں
  • مگر وہ رت ہے کہ ابکے ہمیں سنبھالا نہیں

  بنارس کے مشہور شاعر اور "منتشر لمحوں کا نور" کے 
خالق کبیر اجمل 29 جون سوموارکو بنارس کے ٹاٹا اسپتال میں 53 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔  وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کی وفات کی خبر نے بنارس کی ادبی فضا کو  سوگوار کر دیا۔ کبیر اجمل سنجیدہ، ملنسار، خوش اخلاق، خوش مزاج و مہمان نواز شخصیت  کے مالک ہونے کے ساتھ ہی ایک ہنر مند ڈیزائنر اور کامیاب تاجر تھے۔ انہیں کتابوں کے خوبصورت فرنٹ پیج بنانے میں مہارت حاصل تھی۔

 نیز  وہ بنارس میں ادبی اسٹیج کو سجانے میں ہمیشہ آگے رہا کرتے تھے۔  جب بھی کوئی بیرونی شاعر بنارس آتا ، کبیر اجمل سے پہلی ملاقات میں  ہی ان کا مداح بن جاتا۔ ان  کی شخصیت ایسی تھی کہ جو ان سے ایک بار بھی ملتا، وہ ان کا دوست بن جاتا۔ سوموار کو بعد نمازِ عصر ریوڑی تالاب کے میدان میں انکی نماز جنازہ ادا کی گئی اور نزدیک ہی واقع جمعہ شاہ گیانی کی آبائی قبرستان  میں سپرد خاک کردیا گیا۔ لاک ڈاؤن کی پابندی کے باوجود بھی تدفین میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جسمیں بطور خاص ان کے 
شیخ ولید پور کے سجادہ نشین بھی شامل تھے۔ 

 مرحوم کبیر اجمل کے چند اشعار

ہوا کی زد پہ چراغ شب فسانہ تھا
مگر ہمیں بھی اسی سے دیا جلانا تھا

آنکھوں میں شعلے ہیں، خوف ہے، اداسی ہے
پھول جیسی آنکھوں میں شہر بدحواسی ہے

یوں خوش نہ ہو اے شہر نگاراں کے در و بام
یہ وادیٔ سفاک بھی رہنے کی نہیں ہے

اب کیا ہو کسی معجزۂ حق کی گواہی
ہر سانس میں ہونے کا اشارہ ہے کہ وہ ہے

اجمل تو کسی پر کبھی تنقید نہ کرنا
انسان سبھی کچھ ہے فرشتہ نہیں ہوتا

اور کب تلک اجمل تو غموں کو پالے گا
ڈھونڈ لے کوئی گوشہ، زندگی ذرا سی ہے

Comments

Popular posts from this blog

सीबीएसई ने जारी की 10वीं और 12वीं कक्षा की बोर्ड परीक्षाओं की डेट शीट

नज़ीर बनारसी की जयंती पर काशी में होगा नामचीन शायरों का जुटान

सामाजिक बुराइयों को दूर करने के लिए होगा सामूहिक प्रयास